08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط10
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر10
رینا نے بی اے کیا تھا جب اسکو قبیلہ نے کچھ اور لڑکیوں کے ساتھ اٹھا لیا تھا۔
زوبیہ کی طرح وہ بھی بہت حسین تھی بلکہ اس سے زیادہ۔
تو وہاں کے سردار نے اسکو دیکھ کر رکھ لیا تھا اور باقی لڑکیوں کو کھا گئے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ رہنے کھانے میں ان جیسی عادی ہو گئی تھی۔
اب جب یہ واپس آیی تو ایک نظر اپنی پڑھائی پر ڈالی۔
دوہرایا سب اور پرائیویٹ اسکول میں انٹرویو کے لئے چلی گئی۔
پڑھائی بھی تھی اور دو آتشہ حسن۔
نوکری تو ملنی ہی تھی۔
یوں اب رینا پرنسپل تھی اسکول کی۔
اپنے بیٹے یعنی ہادی کو بھی اسنے اسی اسکول میں رکھا تھا پڑھنے کو۔
وہاں سے آ کر اس نے اپنے بدلہ کی ابتدا کر دی تھی۔ ہادی کو اپنے جیسے سے زیادہ بنانے کی۔
وہ کامیاب ہو رہی تھی۔
اب اس کے انتظار کی گھڑی ختم ہونے والی تھی بس کچھ سال اور۔
پر لگا کر چار سال اور گزر گئے۔
رینا کا حسن ایسا تھا جو ابھی تک نہیں ڈھلا تھا ۔
وہ جہاں موقع ملتا شکار کر لیتی اس سے رینا اور ہادی کے کچھ دن اچھے گزر جاتے۔
ہادی تنہا رہنے کا عادی تھا۔
لڑکیوں سے فاصلہ رکھتا۔
اور پھر جب خون کی پیاس بڑھ جاتی تو رات کو وہ رینا کو بن بتاے شکار کر کے خون پی لیتا۔
بعد میں رینا کو پتہ چل جاتا تھا۔
اس میں ٹھہراؤ تھا پر وہ جانتی تھی ہادی جوان ہے اس کے مزاج میں تیزی اور گرمی ہے۔
وہ سمجهاتی کہ پکڑے نہ جایں اور ہادی ہنس پڑتا نو مام مطمین رہیں۔
میں بے اختیار ہو جاتا ہوں قصور میرا نہیں۔
رینا مسکرا کر عثمان کو یاد کرتی۔
اب یونی کا آخری سال تھا۔
ناظم ایک بھرپور جوان بنا تھا جسم میں سندرتا میں۔
اور نور تو ہونی ہی سندر تھی گئی جو ماں پر تھی۔ لمبے بال۔ غزالی آنکھیں گورا رنگ اوپر سے ماتھے پر بندیا جیسا تل۔
شکر تھا جو ابھی تک ان دونوں کا ہادی سے سامنا نہیں ہوا تھا۔
وہ تینوں الگ سیکشن میں تھے۔
ناظم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کونسا پیشہ چُنے ویسے تو وہ ایسا تھا کہ پرفیکٹ ۔
عثمان کا بیٹا ہی تھا اسکا ہاتھ اسکا مددگار ۔
آج وہ عثمان ناظم کو سمجھا رہا تھا۔
بیٹا شعبے بہت ہیں پر میرا دل ہے تم پولیس جوائن کرو۔
لوگوں کو برائی سے بچاؤ مدد کرو سب کی اور غریبوں کو انصاف میں آسانی رہے۔
اب ناظم سکون میں تھا کیوں کہ اسکو اپنا گول مل چکا تھا۔
شروع سے ہی وہ عثمان کو اپنا آئیڈیل مانتا تھا۔
سدرہ بھی خوش تھی اپنے بیٹا سے۔
ناظم کی وجہ سے حور اور عثمان کو بیٹا کی کمی زیادہ محسوس نہیں ہوتی تھی۔
پھر بھی جب بھی وہ تنہا بیٹھے ہوتے ہادی کو یاد کر کے روتے۔
پیپر شروع ہو گئے تھے۔
ناظم اور نور بہت محنت کر رہے تھے۔
نور کو شوق تھا ڈاکٹر بننے کا۔
پر اس کے گھر والے عثمان اور دادا ارمان اتنے پڑھے لکھے تو تھے نہیں۔
اور نہ عثمان اسکو باہر نکلنے دیتا ٹیوشن پر بھی نہیں۔
ناظم اسکی مدد کرتا اور ناظم کے خیال میں نور کو جاب کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
پھر بھی وہ اپنی منگیتر کا دل نہیں توڑتا تھا جو پڑھتا اسکو بھی پڑھا دیتا۔
انجانے میں اسکی بھی ٹریننگ ہو رہی تھی ناظم کی طرح۔
ہادی بھی لائق تھا۔ تینوں نے ٹاپ کیا تھا۔
ناظم نے انٹرویو دے کر پولیس جوائن کر لی ۔
نور کی ضد پر ناظم اسکو بھی لے کر گیا جب وہ بھی لیڈی پولیس میں سلیکٹ ہوئی تو ناظم کا منہ کھلا رہ گیا جسکو نور نے بند کیا اور ہنس کر بولی تو پڑھاتے کیوں تھے۔
رک ذرا تیرا علاج کرتا ہوں وہ بھاگ رہے تھے آگے پیچھے اور گھر والے اس رونق کو دیکھ کر خوش تھے۔
حور رات کو رو رہی تھی میرا ہادی ہوتا تو ناظم جتنا ہوتا۔
عثمان نے اسکو سینہ سے لگا لیا حور رو نہیں۔
خدا کی مرضی۔
ہمارا بیٹا ہے نہ ناظم۔
آج وہ جا رہے تھے ٹریننگ پر۔
ناظم بیٹا نور کا خیال رکھنا۔عثمان نے فکر سے نور کو دیکھا
جی ابو۔ ناظم ادب سے بولا نور کو دیکھ کر
رینا کے سامنے جب لسٹ آیی تھی ٹاپرذ کی تو نور پر جا کر اسکی فنگر رک گئی تھی۔
نور والد عثمان۔
ارے واہ عثمان کی بیٹی یہیں تھی مجہے پتہ بھی نہ لگا۔
بیچاری کب تک زندہ رہے گی۔
ہاہاہا۔
میرا ہادی ہے نہ اسکو مارنے والا۔
اب دیکھنا عثمان تمہاری نسل کیسے ختم کرتی ہوں۔
رات کو بیٹا ہادی تمہیں پولیس جوائن کرنی ہے۔
اوکے مام جو حکم آپ کا۔
جب تم سلیکٹ ہو گئے تب جشن منایں گے۔
ہادی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
تھینکس مام۔ یو آر گریٹ۔
رینا شاپنگ کر کے واپس آ رہی تھی کہ اسکو عثمان دکھا۔
اپنی فیملی کے ساتھ تھا بیٹی تھی ساتھ اور حور۔
نور جانے سے پہلے خریداری کرنا چاہتی تھی امی ابو کے ساتھ۔
بیٹا کے بنا بھی اتنا خوش۔ حیرت ہے۔ رینا کو تو آگ لگ گئی تھی۔
جس بیٹی کی وجہہ سے ہنس رہے ہو نہ جلد اسی پے رو گے۔ دل میں چیخی۔
رینا واپس آ چکی تھی غصہ میں اس نے سب چیزیں توڑ دی تھیں۔
میں اتنا جل رہی ہوں اور وہ خوش ہے۔
اسکو تو رونا چاہیے تھا۔ بار بار عثمان کا ہنستا چہرہ آنکھوں میں آ رہا تھا اور رینا چیخ کر اپنے خود کو پیٹ رہی تھی۔
میں تمہیں رلاوں گی۔ تم گڑ گڑھاؤ گے تب مجہے سکون ملے گا۔
ہاہاہا ہاں تب مجہے سکون ملے گا۔